Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

مسرت انگیز زندگی کے چھ اصول (ڈاکٹر عبدالجبار، لاہور)

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2008ء

”جلدی کرو‘ جلدی“ لیزا کی آواز گونجی۔ہسپتال میں میڈیکل ٹیم لیزا کے شوہر کو کمرے کی طرف لے جارہی تھی اورلیزا کی بے تابی بڑھتی جارہی تھی۔ کارل اور لیزا نے برس ہا برس اکٹھے گزارے تھے۔ وہ بچے پال چکے تھے‘ اپنے اپنے کیریئر میں خاصے آگے بڑھ چکے تھے۔ دونوں نے مل کر زندگی کے کئی مصائب کا مقابلہ کیا تھا لیکن ان کو کبھی گمان نہ ہوا تھا کہ ان کی مشترکہ زندگی کسی روز اچانک ختم ہو سکتی ہے۔ موت ان کو جدا کر سکتی ہے۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہو سکتا ہے۔”مہربانی کرکے جلدی کیجئے“ لیزا نے ایک بار پھر التجا کی۔ ڈاکٹر اپنا کام شروع کر چکے تھے۔ لیزا ایک کونے میں کھڑی دعائیں مانگ رہی تھی۔ وہ خدا سے کارل کے ساتھ رہنے کا ایک اور موقع مانگ رہی تھی۔ چند لمحوں بعد کارل کی حالت سدھرنے لگی۔ ڈاکٹر کامیاب رہے تھے۔ مریض زندگی کی واپسی کے اشارے دے رہا تھا۔ لیزا بے حس و حرکت کھڑی تھی۔ اس کی آنکھیں آنسوﺅں سے بھری ہوئی تھیں۔ ”ایک اور موقع“ اس نے سرگوشی کی۔ ”میں اس موقع کی قدر کروں گی۔ واقعی زندگی کس قدر ناپائیدار ہے۔ ہمیں خدا نے جو وقت مل کر گزارنے کیلئے عطا کیا ہے اس کو گنوانا نہ چاہیے۔ ہم اب ان دو افراد کی طرح نہ رہیں گے جو اتفاق سے اکٹھے ہو گئے ہوں یا جن کو سماجی رسوم نے ایک دوسرے پلے باندھ دیا ہو۔ ہم ایک دوسرے کی قدر کریں گے۔ تمام رشتوں اور تمام چیزوں پر اس رشتے کو ترجیح دیں گے“ وہ شوہر کے گلے لگ گئی۔ دونوں مل کر رونے لگے۔ اس نئے ملاپ سے پہلے لیزا اور کارل سالہا سال سے شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے‘ مگر وہ محبتیں بانٹنا بھول چکے تھے۔ وہ تو بس ایک چھت کے نیچے وقت گزار رہے تھے۔ انہوں نے ازدواجی زندگی کو تخلیقی بنانے کی کوئی شعوری کوشش نہ کی تھی۔ یوں اس میں کوئی ولولہ‘ کوئی مزہ نہ رہا تھا۔ ڈاکٹر پال پیر سال اس قسم کی خشک اور بے کیف ازدواجی زندگیوں کا برسوں سے مطالعہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر بہت کچھ لکھا ہے اور ہزاروں جوڑوں کو نئی زندگی گزارنے کا راستہ دکھایا ہے۔ اپنے طویل تجربے اور مطالعے کی بنیاد پر ڈاکٹر پیرسال نے مثالی ازدواجی زندگی کا ایک نظام مرتب کیا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس نظام کا مقصد جسموں کے بجائے ذہنوں میں ملاپ پیدا کرنا ہے۔ ان کا دعویٰ یہ ہے کہ جب میاں بیوی کے ذہن مل جاتے ہیں تو پھر جسموں کی دوری خودبخود مٹ جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک خصوصی تجربے کی خاطر ایک ہزار سے زیادہ جوڑوں کے نجی انٹرویوز لیے۔ مردوں اور عورتوں سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ان کے جنسی مسئلے سُنے اور حل کیے۔ اس سارے تجربے کا نچوڑ انہوں نے مندرجہ ذیل چھ اصولوں کی صورت میں پیش کیا ہے: (1 )قیمت ادا کیجئے اچھی ازدواجی زندگی اتفاقاً نہیں مل جاتی۔ اس کو حاصل کرنا پڑتا ہے۔ اس کیلئے محنت کرنی پڑتی ہے اور وقت دینا پڑتا ہے۔ لہٰذا پہلا اصول یہ ہے کہ زندگی کی دوسری کامیابیوں کی طرح اچھی زندگی کیلئے بھی تربیت درکار ہوتی ہے۔ یہ اس وقت حاصل ہوتی ہے جب ہم خلوص دل سے اس کیلئے جدوجہد کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کے خواب بانٹتے ہیں‘ ایک دوسرے پر توجہ دیتے ہیں۔ (2)شادی کو معاشقہ مت بنائیے بیوی محبوبہ نہیں ہوتی اور نہ ہی شادی معاشقہ ہوتی ہے۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ معاشقے مختصر ہوتے ہیں۔ ان میں عارضی شدت ہوتی ہے‘ لیکن وہ اس محبت کی ناپختہ نقل ہوتی ہے جو صرف پائیدار اوربالغ تعلقات سے جنم لیتی ہے۔مثالی ازدواجی زندگی کا دارومدار اس امر پر ہوتا ہے کہ جنس کو پوری ازدواجی زندگی کا حصہ بنایا جائے۔ جنس کو محض ایک ازدواجی فریضہ نہ سمجھا جائے جو باقی زندگی سے الگ تھلگ ہو۔ میاں بیوی جنس کو ازدواجی محبت سے کاٹ دیں تو وہ بے لطف اور میکانکی بن کر بے جان ہو جاتی ہے۔ جنس ازدواجی تعلقات کا ایک حصہ ہے‘ مگر اس کی جڑیں پوری ازدواجی زندگی میں پھیلی ہونی چا ہئیں ۔ (3) جنس توجہ چاہتی ہے ازدواجی زندگی کے کسی حصے کو نظرانداز کر دیا جائے تو وہ غائب ہو جائے گا۔ جنس کا معاملہ تو اور بھی نازک ہے۔ اس پر توجہ نہ دی جائے تو وہ ختم ہونے لگتی ہے۔ لہٰذا یہ اصول یاد رکھیے کہ لوگ جنس سے اسی قدر لطف اٹھاتے ہیں جس قدر وہ اس پر توجہ دیتے ہیں۔ مثالی محبت کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ میاں بیوی کے درمیان وقت کے ساتھ فروغ پانے والی محبت بھری عادتوں کو قبول کر لیا جائے۔ مثلا میاں بیوی اگر ہر ہفتے محبت کے عادی ہو چکے ہیں تو اس کو جاری رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ البتہ اس کو میکانکی نہ بننے دینا چاہیے۔ اس قسم کی عادتیں برسوں کے ملاپ سے وجود میں آتی ہیں۔ ان کی قدر کرنی چاہیے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی وقت کے ساتھ ساتھ ایسی عادتیں بنتی چلی جاتی ہیں۔ وہ زندگی کو آسان اور منظم بنانے میں مدد دیتی ہیں۔ کبھی اپنے ازدواجی ماضی پر ہمدردی سے نگاہ ڈالیے۔ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے جیون ساتھی کے طور پر اس خاص فرد کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ ان واقعات کو یاد کیجئے جن سے آپ دونوں ایک ساتھ گزرے ہیں۔ اپنے مستقبل پر بھی نگاہ دوڑائیے۔ ازدواجی زندگی میں سے ولولہ تلاش کیجئے۔ میاں بیوی جب مل کر زندگی کے مدوجذر سے گزرتے ہیں تو بہت سی مشترک یادیں ان کی زندگی کا حصہ بنتی ہیں۔ یہ یادیں جسمانی ملاپ کا محرک بن سکتی ہیں۔ (4)ازدواجی زندگی کو اولیت دیجئے ایک خاتون نے اپنی بے کیف زندگی کو چند الفاظ میں یوں بیان کیا ہے کہ ”پورے دن میں ہمیں مشکل سے دس منٹ تنہائی کے نصیب ہوتے ہیں۔ رات کو ہم تھک ہار کر جب بیڈ کا رخ کرتے ہیں تو اس قدر بے جان ہوتے ہیں کہ کچھ کرنا مصیبت لگتا ہے۔“یہ ایک خاتون کا مسئلہ نہیں۔ آج کی جدید دنیا میں بے شمار جوڑے اس قسم کے دن کاٹ رہے ہیں۔ وہ اس قدر روگ پال لیتے ہیں کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ اصل میں اس بے رخی کا سبب یہ ہے کہ ان کے نزدیک ازدواجی زندگی اہم ہی نہیں ہوتی۔ دوسری ذمہ داریوں‘ دوسرے لوگوں‘ بچوں‘ والدین‘ اور تفریح کیلئے وہ وقت نکال لیتے ہیں‘ کیونکہ وہ ان کے نزدیک اہم ہیں۔ وہ ازدواجی زندگی کی قیمت پر زندگی کا کھیل جاری رکھتے ہیں۔ مگروہ غلطی پر ہیں۔ ان کو معلوم ہی نہیں کہ ازدواجی زندگی بنیادی یونٹ ہے۔ یہ یونٹ جس قدر مضبوط ہو گا اسی قدر مضبوط باقی نظام بھی ہو جائے گا۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ہم جو بوتے ہیں‘ وہی کاٹتے ہیں۔ اگر یہ کہاوت درست ہے تو پھر اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ ہمارے زمانے میں اکثر ازدواجی زندگیاں بے مزہ اور ناخوشگوار ہیں۔ ذراءتصور کیجئے کہ اگر ہم اپنے کام کاج پر ازدواجی زندگی جتنی توجہ اور وقت صرف کریں تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس سوال کا جواب بس یہ ہے کہ ”ہم بھوکے مر جائیں گے“ڈاکٹر پال پیر سال کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کلینک میں پانچ ہزار سے زیادہ جوڑوں کے امتحان سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کام‘ نیند اور ایسی ہی دیگر مصروفیات کے بعد جو وقت بچتا ہے‘ اس کا بھی عام جوڑے صرف ایک فیصد حصہ اکٹھے گزارتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں مسرت انگیز ازدواجی زندگی حاصل نہیں ہو سکتی ہے۔ (5) محبت کی تکنیک اپنائیے اکثر میاں بیوی شکایت کرتے ہیں کہ ان کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان ہے۔ جنسی امور سمیت کسی معاملے میں بھی وہ ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہیں۔ ان لوگوں کیلئے مشورہ یہ ہے کہ وہ محبت کی تکنیک استعمال کریں۔ یہ تکنیک دوسرے کی بات سننے‘ جائزہ لینے‘ تصدیق کرنے اور ہمدردی کرنے سے عبارت ہے۔ اپنے ساتھی پر روزانہ کم سے کم ایک بار یہ تکنیک آزمائیے۔ یہ سیدھی سی تکنیک ہے۔ چنانچہ اپنے ساتھی کی باتیں توجہ سے سنیے‘ اس کو بولنے اور زیادہ باتیں کرنے پر آمادہ کیجئے۔ اس کی حرکات کا بغور جائزہ لیجئے۔ ان میں دلچسپی ظاہر کیجئے اور باہمی محبت کی تصدیق کرتے رہیے۔ محبت کے الفاظ دہرانے سے وقت ضائع نہیں ہوتا بلکہ ان کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ (6) انتظار میں مت رہیے ہم سب اچھے دنوں کے منتظر رہتے ہیں۔ ہم اس دن کی آس لگائے رہتے ہیں جب سب مسئلے حل ہو جائیں گے۔ہم خوش حال اور فارغ البال ہوں گے۔ چاروں طرف بہار کا سماں ہو گا اور پھول ہی پھول کھل اٹھیں گے۔ مگر ایسا دن کبھی نہیں آتا۔ دنیا کا اپنا چلن ہے۔ وہ خود کو ہماری خواہشوں کے مطابق نہیں ڈھالا کرتی۔ اپنی روش پر قائم رہتی ہے۔ لہٰذا ہمیں اچھے دنوں کا انتظار چھوڑ کر ہمارے پاس جو وقت ہے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اکثر جوڑے پیار و محبت کے لمحوں کیلئے تین باتوں کا انتظار کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بچے سو جائیں‘ وہ خود بیڈ پر جانے کیلئے تیار ہوں اور تیسرے یہ کہ کرنے کیلئے کوئی اور کام نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ایسا وقت مشکل سے ہی ہاتھ آتا ہے۔ پھر اس کا انتظار کیوں کیا جائے؟ ہرگز نہیں‘ وقت ہمیشہ ہمارے پاس موجود نہ رہے گا۔ ہم وقت کو ابدی سمجھتے ہیں۔ یہ خطرناک فریب ہے‘ وقت تو مٹھی میں بند ریت کی طرح ذرہ ذرہ کرکے نکلتا چلا جارہا ہے۔ اس کو تھام لیجئے‘ موجودہ لمحے سے ہی فائدہ اٹھائیے۔ جنسی الجھنوں کا حل خود ازدواجی زندگی میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ آپ تخلیقی انداز میں پرخلوص کوشش کریں تو مسائل کا حل مل جائے گا۔ ڈاکٹر پال پیرسال کا مشورہ یہی ہے اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو‘ جنسی امور کے نام نہاد ماہرین سے دور رہیے۔ ہمارے عہد کی ازدواجی زندگیوں کو سب سے زیادہ ان لوگوں نے ہی خراب کیاہے۔ حال ہی میں مجھے ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں ایک کمرے کے سامنے ایک جوڑا ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے کھڑا تھا‘ دونوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ وہ کارل اورلیزا تھے۔ ”کیسی بیت رہی ہے؟۔“ میں نے پوچھا۔ ”ہم مزے میں ہیں۔“ کارل نے جواب دیا۔ ” ہم چچا کی عیادت کیلئے آئے تھے تو یہاں بھی چلے آئے۔ یہ وہی کمرہ ہے ناں جہاں ہم کو دوسرا موقع ملا تھا۔“
Ubqari Magazine Rated 3.7 / 5 based on 529 reviews.